چھاؤں افسوس دائمی نہ رہی
دھوپ کا کیا رہی رہی نہ رہی
آسرا چھن گیا ہے جینے کا
آس تھی جو رہی سہی نہ رہی
ہو گیا خواب پھول سا چہرہ
شاخ دل بھی ہری بھری نہ رہی
بہہ گئے آنسوؤں کے دریا میں
آپ کی بات یاد ہی نہ رہی
اک اداسی تھی رات تھی ہم تھے
اور پھر حاجت خوشی نہ رہی
مشورہ جس کا تس رہا لیکن
مشوروں کی کبھی کمی نہ رہی
واقعہ جو ہوا ہوا لیکن
داستاں آپ سے جڑی نہ رہی
ان علاقوں میں کیا رہا صاحب
جن علاقوں میں شاعری نہ رہی
اک تمنا تھی تیری محفل میں
کیوں رہیں ہم اگر وحی نہ رہی
غزل
چھاؤں افسوس دائمی نہ رہی
ارشاد خان سکندر