EN हिंदी
چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا | شیح شیری
chehron pe likha hai koi apna nahin milta

غزل

چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا

جاذب قریشی

;

چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا
کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا

چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں گے
صحرا کے شجر سے کوئی دریا نہیں ملتا

میں جان گیا ہوں تری خوشبو کی رقابت
تو مجھ سے ملے تو غم دنیا نہیں ملتا

زلف و لب و رخسار کے آذر تو بہت ہیں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا

میں اپنے خیالوں کی تھکن کیسے اتاروں
رنگوں میں کوئی رنگ بھی گہرا نہیں ملتا

ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
ساحل کو جلانے سے اجالا نہیں ملتا