EN हिंदी
چہروں کو بے نقاب سمجھنے لگا تھا میں | شیح شیری
chehron ko be-naqab samajhne laga tha main

غزل

چہروں کو بے نقاب سمجھنے لگا تھا میں

اصغر مہدی ہوش

;

چہروں کو بے نقاب سمجھنے لگا تھا میں
سب کو کھلی کتاب سمجھنے لگا تھا میں

جلنا ہی چاہئے تھا مجھے اور جل گیا
انگاروں کو گلاب سمجھنے لگا تھا میں

یہ کیا ہوا کہ نیند ہی آنکھوں سے اڑ گئی
کچھ کچھ زبان خواب سمجھنے لگا تھا میں

اپنی ہی روشنی سے نظر کھا گئی فریب
ذروں کو آفتاب سمجھنے لگا تھا میں

پھر کیوں سزاے تشنہ لبی دی گئی مجھے
پانی کو بھی شراب سمجھنے لگا تھا میں

بنیاد اپنے گھر کی فضاؤں میں ڈال دی
بستی کو زیر آب سمجھنے لگا تھا میں

مجھ سے ہی ہو گئی ہے سوال وفا کی بھول
دنیا کو لا جواب سمجھنے لگا تھا میں