چہرے پہ نور صبح سیہ گیسوؤں میں رات
اتری تھی اک پری لئے اپنے پروں میں رات
دن تو شکم کی آگ بجھانے میں جائے ہے
شکر خدا کہ کٹتی ہے دانشوروں میں رات
تھی وجہ خواب کل یہی تسکین قلب بھی
ہم کو تو اب ڈرانے لگی زلزلوں میں رات
ہر صاحب کمال ہے فن کے عروج پر
قبلہ نما رہی ہے سبھی حادثوں میں رات
آنکھوں میں ان کا حسن تھا سوتا میں کس طرح
آئی تھی گرچہ گھر مرے کتنے دنوں میں رات
آوارگی کی چھاپ وہ آئی تھی چھوڑنے
شرمندہ ہو کے لوٹ گئی دل جلوں میں رات
کچھ دیر ہاؤ ہو کا تھا منظر شباب پر
دن کی تھکی تھی سو ہی گئی مندروں میں رات
ہم تھے کہ غرق جام رہے میکشوں کے بیچ
ہم کو تلاش کرتی رہی عابدوں میں رات
جگنو چمک رہے تھے اجالے میں عشق کے
دائمؔ قیام کرتی کہاں بزدلوں میں رات

غزل
چہرے پہ نور صبح سیہ گیسوؤں میں رات
دائم غواصی