چہرے پہ مہر غم ہے خط و خال کی طرح
ماضی بھی دم کے ساتھ ہے اب حال کی طرح
پتے تھے خاک بوس تو شاخیں تھیں سرنگوں
کنج چمن بھی تھا دل پامال کی طرح
اپنے حروف شوق جو شعلہ بجاں تھے کل
ٹھنڈے پڑے ہیں آج وہ اقوال کی طرح
تہذیب ہے کہ آئے تو ہنس بول کر گئے
چپکے سے جائیے نہ مہ و سال کی طرح
سب کے ستارے دیکھ کے دل نے صلاح دی
گردش میں کیوں پڑو کسی رومال کی طرح
آنچل میں نیند باندھ کے اس رات آ بھی جا
یہ دن لگا ہے جان کو جنجال کی طرح
رکھیے بچا کے اپنا دفینہ حسن نعیمؔ
غم کو لٹائیے نہ زر و مال کی طرح
غزل
چہرے پہ مہر غم ہے خط و خال کی طرح
حسن نعیم