چہرے پہ چمچاتی ہوئی دھوپ مر گئی
سورج کو ڈھلتا دیکھ کے پھر شام ڈر گئی
مبہوت سے کھڑے رہے سب بس کی لائن میں
کولہے اچھالتی ہوئی بجلی گزر گئی
سورج وہی تھا دھوپ وہی شہر بھی وہی
کیا چیز تھی جو جسم کے اندر ٹھٹھر گئی
خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر
اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی
تحلیل ہو گئی ہے ہوا میں اداسیاں
خالی جگہ جو رہ گئی تنہائی بھر گئی
چہرے بغیر نکلا تھا اس کے مکان سے
رسوائیوں کی حد سے بھی آگے خبر گئی
رنگوں کی سرخ ناف داکھلیا گلاآفتاب
اندھی ہوائیں خار کھٹک کان بھر گئی
غزل
چہرے پہ چمچاتی ہوئی دھوپ مر گئی
عادل منصوری