چہرے پر خوشحالی لے کر آتا ہوں
تم سے ملنے ٹیکسی لے کر آتا ہوں
یوں کرنا تم جگنو لے کر آ جانا
میں اک دوست سے کشتی لے کر آتا ہوں
رستے میں اک ٹاپو پر کچھ ٹھہریں گے
میں برگر اور پیپسی لے کر آتا ہوں
تم چاہو تو واپس جا بھی سکتی ہو
میں گاڑی کی چابی لے کر آتا ہوں
جسم کی آگ سے کب تک کام چلائیں گے
جنگل سے کچھ لکڑی لے کر آتا ہوں
میں جاتا ہوں تو پتھر سے بہتا ہے
جس چشمے کا پانی لے کر آتا ہوں
غزل
چہرے پر خوشحالی لے کر آتا ہوں
الیاس بابر اعوان