چہرے کو بحال کر رہا ہوں
دنیا کا خیال کر رہا ہوں
اک کار محال کر رہا ہوں
زندہ ہوں کمال کر رہا ہوں
وہ غم جو ابھی ملے نہیں ہیں
میں ان کا ملال کر رہا ہوں
اشعار بھی دعوت عمل ہیں
تقلید بلال کر رہا ہوں
تصویر کو آئینہ بنا کر
تشریح جمال کر رہا ہوں
چہرے پہ جواب چاہتا ہوں
آنکھوں سے سوال کر رہا ہوں
کچھ بھی نہیں دسترس میں سرشارؔ
کیوں فکر مآل کر رہا ہوں
غزل
چہرے کو بحال کر رہا ہوں
سرشار صدیقی