چہرے دھواں دھواں ہیں یہ آثار دیکھ کر
آئینۂ خلوص شرربار دیکھ کر
پھر کوئی کچھ نہ بول سکا کچھ نہ کر سکا
اس بے زباں کی جرأت اظہار دیکھ کر
کچھ اور تیز ہو گئی لمحوں کی سخت دھوپ
ٹھہرے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر
رستے میں کوئی موڑ نہ کوہ گراں ملا
میں لوٹ آیا راہ کو ہموار دیکھ کر
وہ منظر شکستہ کہ دل ڈوبنے لگا
آنکھیں لرز گئیں پس دیوار دیکھ کر

غزل
چہرے دھواں دھواں ہیں یہ آثار دیکھ کر
خورشید سحر