EN हिंदी
چہرہ سالم نہ نظر ہی قائم | شیح شیری
chehra salim na nazar hi qaem

غزل

چہرہ سالم نہ نظر ہی قائم

فضا ابن فیضی

;

چہرہ سالم نہ نظر ہی قائم
بے ستوں سب کی حویلی قائم

ہاتھ سے موجوں نے رکھ دی پتوار
کیسے دھارے پہ ہے کشتی قائم

زیست ہے کچے گھڑے کے مانند
بہتے پانی پہ ہے مٹی قائم

سائے دیوار کے ٹیڑھے ترچھے
اور دیوار کہ سیدھی قائم

سب ہیں ٹوٹی ہوئی قدروں کے کھنڈر
کون ہے وضع پہ اپنی قائم

خود کو کس سطح پر زندہ رکھوں
لفظ دائم ہیں نہ معنی قائم

ہے بڑی بات جو رہ جائے فضاؔ
سطح سنجیدہ نگاہی قائم