چونکا ہے آج یوں ترا دیوانہ خواب میں
جیسے کہ مل گیا کوئی ویرانہ خواب میں
لکھنا ہے پچھلے دن کا بھی افسانہ خواب میں
اے ہونے والی صبح نہ آ جانا خواب میں
دن بھر کی مشکلات کی دونی سزا ملی
بیداریوں کا خواب ہے دہرانا خواب میں
ہم کو غم جہاں نے دلاسے بہت دیے
بہلانا جاگتے میں تو سمجھانا خواب میں
صبح سبو بدست سے اب کے ملیں گے ہم
دار و رسن پہ آئے ہیں رندانہ خواب میں
شاید کہ آج گردن ساقی میں ہاتھ ہوں
چھینا ہے ایک شخص سے پیمانہ خواب میں

غزل
چونکا ہے آج یوں ترا دیوانہ خواب میں
کرار نوری