چشم سے غافل نہ ہوا چاہئے
اس کے مقابل نہ ہوا چاہئے
دل کا ضرر جان کا نقصان ہے
اب کہیں مائل نہ ہوا چاہئے
ہے بت خونخوار بہت تند خو
بوسہ کے سائل نہ ہوا چاہئے
عقل کو دل چھوڑ رہ عشق میں
ہمرہ کاہل نہ ہوا چاہئے
روز تنزل میں ہے ماہ تمام
دہر میں کامل نہ ہوا چاہئے
یار کمر باندھئے انصاف پر
بر سر باطل نہ ہوا چاہئے
قتل کے قابل ہے یہ ؔجوشش ترا
غیر کے قاتل نہ ہوا چاہئے
غزل
چشم سے غافل نہ ہوا چاہئے
جوشش عظیم آبادی