چشم و گوش پہ پہرے ہیں
اندھے ہیں سب بہرے ہیں
دکھ کی آنکھیں نیلی ہیں
دکھ کے بال سنہرے ہیں
نقش ابھی ہے خال ترا
رنگ بھی تیرے گہرے ہیں
میرا کوئی نام نہیں
جانے کتنے چہرے ہیں
معنی پر کوئی قید نہیں
لفظوں پر کیوں پہرے ہیں
دھیان کے رس میں ڈوبے لب
بوسہ بوسہ چہرے ہیں
اشکوں کی بارش ہوگی
دکھ کے بادل گہرے ہیں
گھر کا رستہ بھولے مصحفؔ
اک ہوٹل میں ٹھہرے ہیں

غزل
چشم و گوش پہ پہرے ہیں
مصحف اقبال توصیفی