EN हिंदी
چشم و گیسو کا کوئی ذکر نہ رخسار کی بات | شیح شیری
chashm-o-gesu ka koi zikr na ruKHsar ki baat

غزل

چشم و گیسو کا کوئی ذکر نہ رخسار کی بات

خالد یوسف

;

چشم و گیسو کا کوئی ذکر نہ رخسار کی بات
بیٹھ کر کیجئے ان سے در و دیوار کی بات

یہ ادائیں یہ اشارے یہ حسیں قول و قرار
کتنے آداب کے پردے میں ہے انکار کی بات

رات بھر جس کی تمنا میں جلے ہیں ہم لوگ
وہ سحر شیخ کی نظروں میں ہے کفار کی بات

بزم اغیار اگر ہو تو بچھے جاتے ہیں
اور کرتے ہیں وہ ہم سے رسن و دار کی بات

مدح صیاد بہرحال ضروری تو نہیں
چپ رہو یہ بھی ہے اب جرأت کردار کی بات

کس بھروسے پہ کریں عشق کا سودا خالدؔ
وقت شاید ہے کہ رہتی نہیں تلوار کی بات