چشم کا کر رہا ہوں تر تبدیل
ہو نہیں پا رہا مگر تبدیل
اک ضرورت کو دوسری کے ساتھ
لوگ کرتے ہیں عمر بھر تبدیل
وہاں پھر عشق کے ہوئے مطلب
جہاں ہوتے تھے صرف گھر تبدیل
یہ تو بس تھان ہے رکھو تم ہاتھ
ہونے لگ جائے دل کا بر تبدیل
ایک لڑکی بھی اس میں رہتی ہے
دل کرو مجھ سے سوچ کر تبدیل
جب بھی نزدیک ہوتی ہے منزل
پھر سے ہو جاتا ہے سفر تبدیل
دیکھ کر منڈیوں کی صورت حال
کر رہا ہے شجر ثمر تبدیل
میں وہ میت ہوں جس کی زندہ سے
ہو گئی ہے کہیں خبر تبدیل
نئے ماحول میں اڑیں گے وہ
جو پرندے کریں گے پر تبدیل
وصل کا لطف ہو گیا برباد
تم نے کیوں کی اگر مگر تبدیل
اچھی آنکھیں بدل کے دیکھا ہے
نہیں ہوتی بری نظر تبدیل
کہ کسی رہ پہ وہ ملے مژدمؔ
روز کرتے ہیں رہ گزر تبدیل
غزل
چشم کا کر رہا ہوں تر تبدیل
مژدم خان