EN हिंदी
چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا | شیح شیری
chashm-e-zahir se ruKH-e-yar ka parda dekha

غزل

چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا

حسن بریلوی

;

چشم ظاہر سے رخ یار کا پردہ دیکھا
آنکھیں جب پھوٹ گئیں تب یہ تماشا دیکھا

دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے تمہیں کیسا چاہا
پوچھنا یہ ہے کہ تم نے ہمیں کیسا دیکھا

پھر جلاؤ گے کبھی طالب دیدار کا خط
سیکڑوں آنکھوں سے اس نے تمہیں دیکھا دیکھا

کان وہ کان ہے جس نے تری آواز سنی
آنکھ وہ آنکھ ہے جس نے ترا جلوہ دیکھا

آپ کہتے ہیں کہ جا دیکھ لیا دل تیرا
کہیے تو اپنے سوا دل میں مرے کیا دیکھا

تم خبر بھی نہ ہوئے خانہ بدوشوں سے کبھی
ہم نے گھر پھونک دیا سب نے تماشا دیکھا

جن سے ہوں سوختہ جانوں کے کلیجے ٹھنڈے
انہیں جلووں سے حسنؔ طور کو جلتا دیکھا