چشم تر کو زبان کر بیٹھے
حال دل کا بیان کر بیٹھے
تم نے رسماً مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے
ایک پل بھی کہاں سکون ملا
آپ کو جب سے جان کر بیٹھے
پستیوں میں کبھی گرا ڈالا
اور کبھی آسمان کر بیٹھے
آس کی شمع ٹمٹماتی رہی
ہم کہاں ہار مان کر بیٹھے
ایک پل کا یقیں نہیں راغبؔ
اک صدی کا پلان کر بیٹھے

غزل
چشم تر کو زبان کر بیٹھے
افتخار راغب