EN हिंदी
چشم تر کو زبان کر بیٹھے | شیح شیری
chashm-e-tar ko zaban kar baiThe

غزل

چشم تر کو زبان کر بیٹھے

افتخار راغب

;

چشم تر کو زبان کر بیٹھے
حال دل کا بیان کر بیٹھے

تم نے رسماً مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے

ایک پل بھی کہاں سکون ملا
آپ کو جب سے جان کر بیٹھے

پستیوں میں کبھی گرا ڈالا
اور کبھی آسمان کر بیٹھے

آس کی شمع ٹمٹماتی رہی
ہم کہاں ہار مان کر بیٹھے

ایک پل کا یقیں نہیں راغبؔ
اک صدی کا پلان کر بیٹھے