چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ
محتسب آج کدھر جام کہاں ہے شیشہ
بزم ساقی میں جو آواز نہیں قلقل کی
اس قدر آج یہ کیوں پنبہ دہاں ہے شیشہ
محتسب سنگ لیے ہاتھ میں اور سوئے فلک
دم بہ دم چشم دہن سے نگراں ہے شیشہ
پانو رکھتا ہی نہیں ناز سے بالائے زمیں
کف بہ کف بزم میں ساقی کی رواں ہے شیشہ
ہے تراوش میں بقاؔ اس سے مے ناب سخن
ہے بجا کہیے اگر اپنا دہاں ہے شیشہ
غزل
چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ
بقا اللہ بقاؔ