EN हिंदी
چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ | شیح شیری
chashm-e-tar jam dil-e-baada-kashan hai shisha

غزل

چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ

بقا اللہ بقاؔ

;

چشم تر جام دل بادہ کشاں ہے شیشہ
محتسب آج کدھر جام کہاں ہے شیشہ

بزم ساقی میں جو آواز نہیں قلقل کی
اس قدر آج یہ کیوں پنبہ دہاں ہے شیشہ

محتسب سنگ لیے ہاتھ میں اور سوئے فلک
دم بہ دم چشم دہن سے نگراں ہے شیشہ

پانو رکھتا ہی نہیں ناز سے بالائے زمیں
کف بہ کف بزم میں ساقی کی رواں ہے شیشہ

ہے تراوش میں بقاؔ اس سے مے ناب سخن
ہے بجا کہیے اگر اپنا دہاں ہے شیشہ