چشم پر نم ابھی مرہون اثر ہو نہ سکی
زندگی خاک نشینوں کی بسر ہو نہ سکی
میکدے کی وہی مانوس فضا اور دل زار
ایک بھی رات بہ انداز دگر ہو نہ سکی
غم جاناں غم دوراں کی گزر گاہوں سے
گزرے کچھ ایسے کہ خود اپنی خبر ہو نہ سکی
دھندلے دھندلے نظر آتے تو ہیں قدموں کے نشاں
گرچہ پر نور ابھی راہ گزر ہو نہ سکی
زندگی جام بہ کف آئی بھی محفل میں مگر
شب کے متوالوں کو توفیق نظر ہو نہ سکی
کیسے تابندہ ستاروں کا لہو جلتا ہے
شب تاریک جو عنوان سحر ہو نہ سکی

غزل
چشم پر نم ابھی مرہون اثر ہو نہ سکی
حنیف فوق