چشم نم پہلے شفق بن کے سنورنا چاہے
اور پھر ریت کے دامن پہ بکھرنا چاہے
عجب انسان ہے وہ سحر یہ کرنا چاہے
آنکھ سے دیکھو اگر دل میں اترنا چاہے
کچھ عجب اس سے تعلق ہے کہ اس کی ہر بات
موج خوں بن کے مرے سر سے گزرنا چاہے
سارا دن دھوپ کے صحرا میں رہے سرگرداں
شام ہوتے ہی سمندر میں اترنا چاہے
خود رہے طعن و ملامت کا ہدف اس پہ کبھی
اپنی رسوائی کا الزام نہ دھرنا چاہے
آئنہ جاں کا مکدر سہی لیکن شاہینؔ
دل کی تصویر تو آنکھوں میں اترنا چاہے
غزل
چشم نم پہلے شفق بن کے سنورنا چاہے
سلمیٰ شاہین