چشم خونبار سا برسے نہ کبھو پانی ایک
ابر ہر چند کرے اپنا لہو پانی ایک
شست و شو نامۂ اعمال کی جس سے ہوئے
برس اے ابر کرم مجھ پہ وہ تو پانی ایک
لاکھ پانی سے میں دھویا نہ چھٹا زخم کا خون
کام آیا نہ مرے وقت رفو پانی ایک
آج تک اشک مری آنکھ سے گرتے ہیں سفید
ظرف میں اپنے یہ رکھتا ہے سبو پانی ایک
تا کمر ابر مژہ اپنا تو برسا سو بار
نہ ہوا موج زناں تابہ گلو پانی ایک
ہم تری چال سے دل کیونکہ نہ ہاریں اس اے چرخ
بازی دشوار ہے تجھ سے تو عدو پانی ایک
بازیٔ مرغ میں بھی ہار رہی غافلؔ کی
تجھ سے جیتا نہ وہ اے عربدہ جو پانی ایک
غزل
چشم خونبار سا برسے نہ کبھو پانی ایک
منور خان غافل