چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا
اور اس دل کو تری خیر خبر پر رکھا
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر ہم نے اٹھا راہ گزر پر رکھا
بوجھ سے جھکنے لگی شاخ تو جا کر ہم نے
آشیانے کو کسی اور شجر پر رکھا
چمن دہر میں اس طرح بسر کی ہم نے
سایۂ گل کا بھی احسان نہ سر پر رکھا
اس کی آواز پہ باہر نکل آیا ہوں جمالؔ
سارا اسباب سفر رہ گیا گھر پر رکھا
غزل
چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا
جمال احسانی