چشم گردوں پھر تمازت اپنی برسانے لگی
پھر زمیں منت کش دریا نظر آنے لگی
پھر جہان تازہ کی ہم جستجو کرنے لگے
پھر خرابے میں طبیعت اپنی گھبرانے لگی
کیا میسر آ گیا مجھ کو ہوا کا التفات
اب مری آواز شاید دور تک جانے لگی
منظر خوش رنگ سے اکتا کے آخر یہ نظر
اپنی آوارہ مزاجی کی سزا پانے لگی
پھر کسی کے در پہ خوشبو دے رہی ہے دستکیں
پھر کوئی آہٹ مرے کانوں سے ٹکرانے لگی

غزل
چشم گردوں پھر تمازت اپنی برسانے لگی
شعیب نظام