چرچے ترے خلوص کے دنیا میں کم نہ تھے
پھر بھی ترے کرم کے سزاوار ہم نہ تھے
ہوگا کوئی شریر سا جھونکا نسیم کا
جس نے تری نقاب اٹھائی وہ ہم نہ تھے
مضمر تھیں تیرے جور میں تیری عنایتیں
تیرے ستم بھی تیری نوازش سے کم نہ تھے
اس راستے پہ چھوڑ گیا راہ بر مجھے
جس راستے پہ آپ کے نقش قدم نہ تھے
معصومیت نے جینا بھی دشوار کر دیا
ناکردہ کار دل میں کبھی اتنے غم نہ تھے
کچھ بوجھ بن چکی تھیں تری کم نگاہیاں
محفل میں انتشار کا باعث تو ہم نہ تھے
کوثرؔ کو باریابی کا اعزاز مل گیا
پہلے ہی اس پہ آپ کے احسان کم نہ تھے

غزل
چرچے ترے خلوص کے دنیا میں کم نہ تھے
مہر چند کوثر