چرچا اس ایک بات کا دشت و دمن میں تھا
کس کا لطیف ہاتھ ظہور چمن میں تھا
کانٹا تھا حسن ذات کا کرتا نہ کیوں خلش
یک گونہ حظ و لطف بھی لیکن چبھن میں تھا
اس شخص کے ضمیر نے کر لی تھی خودکشی
پودا ہوس کا جس کی تمنا کے بن میں تھا
سیارۂ گناہ کا سایہ جدھر پڑا
تارے سیاہ پوش تھے سورج گہن میں تھا
یلغار کر رہی تھی مزاحم پہ دم بہ دم
کس درجہ گرم خون انا کے بدن میں تھا
گو میری بات پر اسے ہادیؔ یقیں تو تھا
شک و گماں کا رنگ بھی اس کے چلن میں تھا
غزل
چرچا اس ایک بات کا دشت و دمن میں تھا
منوہر لال ہادی