چراغ ضبط تمنا سے جل نہ جائیں کہیں
گلوں کے اشک ستاروں میں ڈھل نہ جائیں کہیں
اسی لیے ہیں گراں پا کہ ہم جو تیز چلے
دیار یار سے آگے نکل نہ جائیں کہیں
بچھا رہے ہیں مری راہ میں جو انگارے
وہ ہاتھ پھول ہیں ڈرتا ہوں جل نہ جائیں کہیں
قدم قدم پہ بچھاؤ بساط کیف و نشاط
شراب اور پلاؤ سنبھل نہ جائیں کہیں
ہر ایک گام پہ اشکوں کے گرم چشمے ہیں
دلوں کے سنگ سنبھالو پگھل نہ جائیں کہیں
چلے چلو کہ بھروسہ نہیں ہواؤں کا
ابھی ہیں ساتھ ابھی رخ بدل نہ جائیں کہیں
در حبیب ہو یا کوچۂ عدو خالدؔ
یہ آرزو ہے کہ اب سر کے بل نہ جائیں کہیں
غزل
چراغ ضبط تمنا سے جل نہ جائیں کہیں
خالد یوسف