EN हिंदी
چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا | شیح شیری
charagh usne bujha bhi diya jala bhi diya

غزل

چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا

بشیر الدین احمد دہلوی

;

چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا
یہ میری قبر پہ منظر نیا دکھا بھی دیا

یہ چھیڑ کیا ہے یہ کیا مجھ سے دل لگی ہے کوئی
جگایا نیند سے جاگا تو پھر سلا بھی دیا

ادھر تھا لطف و کرم ان کا اس طرف تھا عتاب
چراغ امید کا روشن کیا بجھا بھی دیا

یہ شوخیاں نئی دیکھیں تمہاری چتون میں
کہ پردہ رخ پہ لیا اور پھر اٹھا بھی دیا

ادھر لگاؤ ادھر برہمی کے ہیں آثار
مجھے پھنسا بھی لیا اور پھر چھڑا بھی دیا

نکل گئے مری آنکھوں سے سیکڑوں آنسو
خزانہ جمع کیا اور پھر لٹا بھی دیا

نیا ہے حسن کے بازار کا اتار چڑھاؤ
چڑھایا سر پہ نگاہوں سے پھر گرا بھی دیا

ذرا تو پاس طلب عاشقوں کا تم کرتے
بلایا پاس بھی پھر پاس سے ہٹا بھی دیا

یہ ان کا کھیل تو دیکھو کہ ایک کاغذ پر
لکھا بھی نام مرا اور پھر مٹا بھی دیا

اگرچہ راہ محبت ہے تنگ و تار مگر
اسی کے ساتھ ہمیں عقل کا دیا بھی دیا

بشیرؔ سینگ کٹا کر ملے ہیں بچھڑوں میں
بنے جوان بڑھاپے کا غم بھلا بھی دیا