چراغ کی اوٹ میں ہے محراب پر ستارہ
رکا ہوا ہے ابھی گل خواب پر ستارہ
یہ کس روانی میں ڈوبتی جا رہی ہیں آنکھیں
چمک رہا ہے یہ کیوں رخ آب پر ستارہ
رکی ہوئی ہے زمین پانی کے منطقے پر
ٹھہر گیا ہے نگاہ بیتاب پر ستارہ
کہیں مری دھوپ کی حکومت ہے آئنے پر
جھکا ہوا ہے کہیں زر آب پر ستارہ
محیط میں گھومتے رہیں گے اگر سفینے
سیاہ پڑنے لگے گا گرداب پر ستارہ
سنا تھا اس رات کے مقابل بھی آئینہ ہے
مگر دکھائی دیا ہے مہتاب پر ستارہ
میں ہوں کسی رات کی سیاہی کا رزق لیکن
تلاش کرتا ہوں روئے احباب پر ستارہ
غزل
چراغ کی اوٹ میں ہے محراب پر ستارہ
غلام حسین ساجد