چراغ ہوں کب سے جل رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
جو بجھ گیا تو سحر نما ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
وہ بات جو آپ کہہ نہ پائے مری غزل میں بیاں ہوئی ہے
میں آپ کا حرف مدعا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
غبار ہوں آپ چاہے غازہ بنائیں یا زیر پا بچھا لیں
میں کب سے رقصاں ہوں تھک چکا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
بہت ہی شائستگی سے ہر لمحہ ڈوبتی اک صدا کی صورت
میں خلوت جاں میں بجھ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
بلا سے یہ راہ شوق میری نہ ہو سکی پر تمہاری خاطر
مثال نقش قدم بچھا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
غزل
چراغ ہوں کب سے جل رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھیے
پیرزادہ قاسم