EN हिंदी
چراغ زیست مدھم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں | شیح شیری
charagh-e-zist maddham hai abhi tu nam na kar aankhen

غزل

چراغ زیست مدھم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

رینو نیر

;

چراغ زیست مدھم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں
ابھی امید میں دم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

کبھی تو وصل کی چارہ گری بھی کام آئے گی
ابھی تو ہجر مرہم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

ابھی تو سامنے بیٹھی ہوں بالکل سامنے تیرے
ابھی کس بات کا غم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

ابھی جو فکر ہے تیری اسے ثابت تو ہونے دے
ابھی یاروں میں دم خم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

سرابوں سے ابھی امید کے جھرنے نہیں پھوٹے
عجب تشنہ سا عالم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

بہاریں ہوں نہ ہوں پھر بھی چمن خالی نہیں رہتا
یہ موسم غم کا موسم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

ابھی منظر بدلتے ہی بدل جائیں گے سب چہرے
بچھڑتے وقت کا غم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں

ابھی اے بلبلو گاؤ نہ نغمے تم بہاروں کے
ابھی تو لطف پیہم ہے ابھی تو نم نہ کر آنکھیں