چراغ شوق جلا رات کے اثر سے نکل
سفر نہ روک طلسمات رہ گزر سے نکل
کبھی تو دست حنائی سے لکھ وصال کی رت
کبھی تو شیشۂ جاں ٹوٹنے کے ڈر سے نکل
جواز ڈھونڈ نہ اپنی صدا بکھرنے کا
حیات مہر بہ لب دست چارہ گر سے نکل
ذرا سی وسعت ادراک میں نہ گم ہو جا
اس امتحاں سے گزر حیرت خبر سے نکل
ترے خیال میں ہوں شہر رفتگاں تو بھی
کسی کھنڈر سے ابھر عکس بام و در سے نکل
زکوٰۃ خواب میں دے دی ہیں میں نے آنکھیں بھی
اب اے جہان دگر حیطۂ نظر سے نکل
نگاہ زرد میں اگ سبز خواب کی کونپل
گلاب شاخ پھر اجڑے ہوئے شجر سے نکل
بندھے ہیں شام ستونوں سے صبح کے تارے
جمال یار کسی نقش معتبر سے نکل
فصیل شہر پہ عکس شب تأسف ہے
نجات غم کی کرن خیمۂ سحر سے نکل

غزل
چراغ شوق جلا رات کے اثر سے نکل
خاور اعجاز