چراغ عشق جلتا ہے ہمارے قلب ویراں میں
چلے آؤ ابھی تک روشنی ہے اس بیاباں میں
نہیں اے دوست ان اشکوں کا کوئی دیکھنے والا
درخشاں ہیں جو انجم کی طرح چاک گریباں میں
کچھ ایسے غم بھی ہوتے ہیں جو اشکوں میں نہیں ڈھلتے
شرارے بن کے لیکن رقص کرتے ہیں رگ جاں میں
بنانا تھا جسے منصور اسے دار و رسن بخشا
اسے یوسف بناتے ہیں جسے رکھتے ہیں زنداں میں
وہ کشتی آج ڈوبا چاہتی ہے پاس ساحل کے
سلامت ایک مدت تک رہی جو بحر طوفاں میں
زمانے میں فقط ایک بے بسی کا ساتھ ہوتا ہے
کوئی اپنا نہیں ہوتا کبھی حال پریشاں میں

غزل
چراغ عشق جلتا ہے ہمارے قلب ویراں میں
جلیل الہ آبادی