EN हिंदी
چراغ حسن ہے روشن کسی کا | شیح شیری
charagh-e-husn hai raushan kisi ka

غزل

چراغ حسن ہے روشن کسی کا

بیان میرٹھی

;

چراغ حسن ہے روشن کسی کا
ہمارا خون ہے روغن کسی کا

ابھی نادان ہیں محشر کے فتنے
رہیں تھامے ہوئے دامن کسی کا

دل آیا ہے قیامت ہے مرا دل
اٹھے تعظیم دے جوبن کسی کا

یہ محشر اور یہ محشر کے فتنے
کسی کی شوخیاں بچپن کسی کا

ادائیں تا ابد بکھری پڑی ہیں
ازل میں پھٹ پڑا جوبن کسی کا

کیا تلوار نے گھونگھٹ مرے بعد
نہ منہ دیکھے گی یہ دلہن کسی کا

ہماری خاک محشر تک اڑی ہے
نہ ہاتھ آیا مگر دامن کسی کا

بجائے گل مری تربت پہ ہوں خار
کہ الجھے گوشۂ دامن کسی کا

بیاںؔ برق بلا چتون کسی کی
دل پر آرزو خرمن کسی کا