چراغ فکر جلایا ہے رات بھر ہم نے
اور اس کے بعد نکھارا رخ سحر ہم نے
ہمیں شعور نے دھوکے دیئے ہیں رہ رہ کر
فریب کھائے ہیں دانستہ بیشتر ہم نے
صلہ خرد کا زمانے میں جام زہر سہی
نکھار دی ہے مگر عظمت بشر ہم نے
نظر ہو دولت ہر دوجہاں پہ کیا مائل
سمیٹ لی ہے بہت دولت نظر ہم نے
صدائے پا کی سنی باز گشت ہی ہر گام
تلاش کی ہے جہاں تیری رہ گزر ہم نے
نگار گل نے لیا نام زیر لب تیرا
اداس چاند کو دیکھا پس شجر ہم نے
غزل
چراغ فکر جلایا ہے رات بھر ہم نے
عرفانہ عزیز