چراغ دید جلاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
دھوئیں سے شعلہ جگاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
کوئی غزل کوئی نغمہ کوئی بہار کا گیت
فضائے غم کو سناؤ کہ خواب لرزاں ہیں
حیات جبر مسلسل سہی مگر اس وقت
رباب و ساز اٹھاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
بہ نام تشنگی لاؤ کوئی دہکتا ایاغ
یہ سرد رات جلاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
کرم کا مہر و محبت کا ذکر کیا اب تو
ستم کے ناز اٹھاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
افق پہ زیست کے ہنگام آرزوئے وصال
کا ماہتاب سجاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
یہ پل صراط تمنا کی سخت راہیں ہیں
قدم سنبھل کے اٹھاؤ کہ خواب لرزاں ہیں

غزل
چراغ دید جلاؤ کہ خواب لرزاں ہیں
ساجدہ زیدی