چراغ درد کہ شمع طرب پکارتی ہے
اک آگ سی لب دریائے شب پکارتی ہے
عدو سے جان بچی ہے نہ دوست بچھڑے ہیں
یہ شام گریہ ہمیں بے سبب پکارتی ہے
چراغ شوق پہ رہ رہ کے نور آتا ہے
ہوا بہ طرز رخ و چشم و لب پکارتی ہے
شہید آب و نمک ہیں سو بڑھتے جاتے ہیں
شکست و فتح پیادوں کو کب پکارتی ہے
صدائیں دے کے بلاتی ہے شاہ بانوئے شہر
فقیر جس کے ہیں دیکھیں وہ کب پکارتی ہے
میں جیسے دن کی تب و تاب سے پریشاں ہوں
بوقت شام خوشی اک عجب پکارتی ہے
ہم ایسے کون انوکھے طلوع ہوتے ہیں
جو ہم کو دیکھ کے دنیا غضب پکارتی ہے
غزل
چراغ درد کہ شمع طرب پکارتی ہے
ارشد عبد الحمید