چراغ دل کا تھا روشن بجھا گیا پانی
کہ بن کے سیل بلا گھر میں آ گیا پانی
خلوص پیار وفا سب اسی کے ساتھ گئے
محبتوں کے نشاں سب مٹا گیا پانی
چڑھا ہوا تھا جو دریا اتر گیا لیکن
ہماری اونچی عمارت ڈھا گیا پانی
بجھے گی پیاس بھلا کیا زمیں کی اشکوں سے
ہماری آنکھ میں کیوں آج آ گیا پانی
ہوئی جو بارش غم تو بدل گئے منظر
ذرا سی دیر میں کیا کیا دکھا گیا پانی
ڈبو ہی دے گا تمہیں اب ندی کا یہ سیلاب
کہاں بچو گے کہ اب گھر میں آ گیا پانی
میں اب یہ شہر ہوس چھوڑ کر کہاں جاؤں
مجھے تو راس یہاں کا اب آ گیا پانی
غزل
چراغ دل کا تھا روشن بجھا گیا پانی
احتشام اختر