چراغ دل کا مقابل ہوا کے رکھتے ہیں
ہر ایک حال میں تیور بلا کے رکھتے ہیں
ملا دیا ہے پسینہ بھلے ہی مٹی میں
ہم اپنی آنکھ کا پانی بچا کے رکھتے ہیں
ہمیں پسند نہیں جنگ میں بھی مکاری
جسے نشانے پہ رکھیں بتا کے رکھتے ہیں
کہیں خلوص کہیں دوستی کہیں پہ وفا
بڑے قرینے سے گھر کو سجا کے رکھتے ہیں
انا پسند ہیں ہستیؔ جی سچ سہی لیکن
نظر کو اپنی ہمیشہ جھکا کے رکھتے ہیں
غزل
چراغ دل کا مقابل ہوا کے رکھتے ہیں
ہستی مل ہستی