EN हिंदी
چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے | شیح شیری
charag apni thakan ki koi safai na de

غزل

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

معراج فیض آبادی

;

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے

مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کااحساس
مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے

بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے

میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے

اگر یہی تری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے

دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے مورخ نے
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے