EN हिंदी
چند مہمل سی لکیریں ہی سہی افشا رہوں | شیح شیری
chand mohmal si lakiren hi sahi ifsha rahun

غزل

چند مہمل سی لکیریں ہی سہی افشا رہوں

ظہیر صدیقی

;

چند مہمل سی لکیریں ہی سہی افشا رہوں
نوک خامہ پر برنگ روشنائی کیا رہوں

کوئی شاید آ ہی جائے راستہ تکتا رہوں
ایک سنگ میل بن جاؤں بہ چشم وا رہوں

کھائی سے سب کو بچا لوں میں نہ کچلا جاؤں تو
بن کے خطرہ کا نشاں رستے میں استادہ رہوں

دشت تنہائی میں یادوں کے درندوں سے ڈروں
بچ بچا کے بھیڑ میں آؤں تو پھر تنہا رہوں

ذرے ذرے میں بکھر جانا ہے تکمیل حیات
مجھ کو یہ زیبا نہیں اب ذات میں سمٹا رہوں

اپنی آوازیں ہی جب بار سماعت ہیں ظہیرؔ
چیختے گنبد میں بہتر ہے کہ میں گونگا رہوں