EN हिंदी
چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے | شیح شیری
chanchalahaT mein tu mamola hai

غزل

چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے

آبرو شاہ مبارک

;

چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے
جھلجھلاہٹ میں در امولا ہے

دیکھ تجھ مکھ کوں یوں چھپے یوسف
جوں کبوتر کنویں میں کولا ہے

سیر کرتا ہوں بیٹھ کر اس بیچ
دل ہمارا اڑن کھٹولا ہے

سرو سیں قد ہے یار کا موزوں
میں نے میزان لیں کے تولا ہے

سرد مہری سیں بے وفا کا حال
ہے خنک اس قدر کہ اولا ہے

جان کر کے اجان ہوتا ہے
تم نہ جانو کہ جان بھولا ہے

ہم سوں سب مل کہو مبارک باد
کہ ٹک اک ہنس کے آ کے بولا ہے

آبروؔ ہائے کیوں گلے نہ لگا
میرے دل میں یہی ملولا ہے