چمکے گا ابھی میرے خیالات سے آگے
وہ نقش کہ تھا داغ ملاقات سے آگے
لگتا ہے کہ مشکل ہے ابھی دن کا نکلنا
ہے رات کوئی اور بھی اس رات سے آگے
اس وہم سے واپس نہیں پلٹا ہوں کہ ہوگا
کچھ اور بھی اس خواب طلسمات سے آگے
آرام سے پیچھے وہ ہٹا دیتا ہے مجھ کو
بڑھتا ہوں اگر اس کی ہدایات سے آگے
دوران سفر کرتا ہوں آرام بھی لیکن
ہوتا ہوں ٹھہرنے کے مقامات سے آگے
عقدہ اسی خاطر کوئی ہوتا ہی نہیں حل
ہیں سارے سوالات جوابات سے آگے
آگاہ کیا ہے تو ہوئے اور بھی غافل
واقف جو نہیں تھے مرے حالات سے آگے
ہو سکتا ہے کیا کوئی بھلا ان کے برابر
رہتے ہیں جو خود اپنے بیانات سے آگے
اتنا بھی بہت ہے جو ظفرؔ قحط نوا میں
نکلی ہے کوئی بات مری بات سے آگے
غزل
چمکے گا ابھی میرے خیالات سے آگے
ظفر اقبال