چمکا ہے یوں نصیب کا تارا کبھی کبھی
ہم کو تو خود اسی نے پکارا کبھی کبھی
لے ڈوبتا ہے دل کو سہارا کبھی کبھی
منجدھار بن گیا ہے کنارا کبھی کبھی
یہ بھی ہوا ہے حال ہمارا کبھی کبھی
اپنے کو ہم نے آپ پکارا کبھی کبھی
اپنے سے بے نیاز ہوا جا رہا ہوں میں
سن سن کے تم سے حال تمہارا کبھی کبھی
ساتھ اپنے شام ہجر کے جاگوں کہ آس بھی
لے ڈوبتا ہے صبح کا تارا کبھی کبھی
طوفاں سے بچنے والے بہت شادماں نہ ہو
کشتی پہ پھٹ پڑا ہے کنارا کبھی کبھی
منظرؔ شکایتوں کی تلافی ضرور ہے
اک سجدہ شکر کا بھی خدارا کبھی کبھی
غزل
چمکا ہے یوں نصیب کا تارا کبھی کبھی
منظر لکھنوی