EN हिंदी
چمن میں رہ کے بھی کیوں دل کی ویرانی نہیں جاتی | شیح شیری
chaman mein rah ke bhi kyun dil ki virani nahin jati

غزل

چمن میں رہ کے بھی کیوں دل کی ویرانی نہیں جاتی

سحر محمود

;

چمن میں رہ کے بھی کیوں دل کی ویرانی نہیں جاتی
بس اتنی بات پر لوگوں کی حیرانی نہیں جاتی

مقدر پر ہوا ہوں جب سے میں راضی اسی دن سے
خوشی ہو یا کہ غم چہرے کی تابانی نہیں جاتی

فرشتے بھی ہماری قسمتوں پر ناز کرتے ہیں
مگر اپنی حقیقت ہم سے پہچانی نہیں جاتی

انا کا مسئلہ دیوانگی سے کم نہیں ہوتا
حقیقت کتنی بھی واضح ہو وہ مانی نہیں جاتی

حقیقت میں وہ آئینہ صفت انسان ہوتا ہے
کہ توبہ کر کے بھی جس کی پشیمانی نہیں جاتی

یہ شکوے اور یہ حیلے بہانے کیوں عبث کیجے
جنہیں بچنا ہو ان کی پاک دامانی نہیں جاتی

نظر میں پھر رہا ہے بس کسی کے حسن کا منظر
مذاق دید کی وہ جلوہ سامانی نہیں جاتی

محبت کے لیے اب تو ریا کاری ضروری ہے
یہاں اہل جنوں کی قدر پہچانی نہیں جاتی

قیامت کی نشانی یہ نہیں تو اور پھر کیا ہے
لباس اچھے ہیں لیکن پھر بھی عریانی نہیں جاتی

تعلق دوریوں سے اور بھی مضبوط ہوتا ہے
سحرؔ انساں کی لیکن خوئے نادانی نہیں جاتی