چمن کو خار و خس آشیاں سے عار نہ ہو
کہیں گزشتہ بہاروں کی یادگار نہ ہو
چمک رہا ہے اندھیرے میں کاروبار حیات
نظر نظر ہو تو جینا بھی سازگار نہ ہو
یہ زلف و رخ یہ شب و روز یہ بہار و خزاں
وہ سلسلہ ہے کہ قطع نظر بھی بار نہ ہو
بہار کچھ جو ملی رنگ و بو سے بیگانہ
وہ آ گئے کہ عناصر میں انتشار نہ ہو
یہ تار و پود نظام خرد بکھر کے رہے
جنوں بقدر تجلی جو ہوشیار نہ ہو
یہ ڈر رہا ہوں میں تکرار موسم گل سے
مٹا ہوا کوئی عالم پھر آشکار نہ ہو
یہ آرزو ہے کہ خوش فہمیٔ طلب ہے نشورؔ
امید کیا ہے جو دنیا امیدوار نہ ہو
غزل
چمن کو خار و خس آشیاں سے عار نہ ہو
نشور واحدی