چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں
شراب تلخ پلانے کی بات کرتا ہوں
خود آگہی کو جگانے کی بات کرتا ہوں
سخنوروں کو جلانے کی بات کرتا ہوں
کہ جاگتوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں
اٹھی ہوئی ہے جو رنگینیٔ تغزل پر
وہ ہر نقاب گرانے کی بات کرتا ہوں
اس انجمن سے اٹھوں گا کھری کھری کہہ کر
پھر انجمن میں نہ آنے کی بات کرتا ہوں
یہاں چراغ تلے لوٹ ہے اندھیرا ہے
کہاں چراغ جلانے کی بات کرتا ہوں
وہ باغبان! جو پھولوں سے بیر رکھتا ہے
یہ آپ ہی کے زمانے کی بات کرتا ہوں
روش روش پہ بچھا دو ببول کے کانٹے
چمن سے لطف اٹھانے کی بات کرتا ہوں
وہاں شراب پلاتا ہوں اہل بینش کو
جہاں بھی خون بہانے کی بات کرتا ہوں
مزاج حسن کہیں بد مزا نہ ہو جائے
ادل بدل کے فسانے کی بات کرتا ہوں
مگر فریب دہی میں درکار ہے اچھوتا پن
ترے فریب میں آنے کی بات کرتا ہوں
وہیں سے شعر میں برجستگی نہیں رہتی
جہاں سے حال چھپانے کی بات کرتا ہوں
پلا رہا ہوں میں کانٹوں کو خون دل اے شادؔ
گلوں کے رنگ اڑانے کی بات کرتا ہوں
غزل
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
شاد عارفی