چمن ہے مقتل نغمہ اب اور کیا کہیے
بس اک سکوت کا عالم جسے نوا کہیے
اسیر بند زمانہ ہوں صاحبان چمن
مری طرف سے گلوں کو بہت دعا کہیے
یہی ہے جی میں کہ وہ رفتۂ تغافل و ناز
کہیں ملے تو وہی قصۂ وفا کہیے
اسے بھی کیوں نہ پھر اپنے دل زبوں کی طرح
خراب کاکل و آوارۂ ادا کہیے
یہ کوئے یار یہ زنداں یہ فرش مے خانہ
انہیں ہم اہل تمنا کے نقش پا کہیے
وہ ایک بات ہے کہیے طلوع صبح نشاط
کہ تابش بدن و شعلۂ حنا کہیے
وہ ایک حرف ہے کہیے اسے حکایت زلف
کہ شکوۂ رسن و بندش بلا کہیے
رہے نہ آنکھ تو کیوں دیکھیے ستم کی طرف
کٹے زبان تو کیوں حرف ناروا کہیے
پکاریے کف قاتل کو اب معالج دل
بڑھے جو ناخن خنجر گرہ کشا کہیے
پڑے جو سنگ تو کہیے اسے نوالۂ زر
لگے جو زخم بدن پر اسے قبا کہیے
فسانہ جبر کا یاروں کی طرح کیوں مجروحؔ
مزہ تو جب ہے کہ جو کہیے برملا کہیے
غزل
چمن ہے مقتل نغمہ اب اور کیا کہیے
مجروح سلطانپوری