EN हिंदी
چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے | شیح شیری
chaman-e-lala ye ulfat teri dikhlati hai

غزل

چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے

میر محمدی بیدار

;

چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے
سینکڑوں داغ ہیں اور ایک مری چھاتی ہے

گرچہ طوطی بھی ہے شیریں سخنی میں ممتاز
پر تری بات کی لذت کو کہاں پاتی ہے

بدلی آ جاتی ہے اس لطف سے خورشید پہ کم
زلف منہ پر ترے جس آن سے کھل جاتی ہے

گل ہی تنہا نہ خجل ہے رخ رنگیں سے ترے
نرگس آنکھوں کے ترے سامنے شرماتی ہے

میں کہاں اور ترا وصل یہ ہے بس اے گل
گاہ بے گاہ تری بو تو صبا لاتی ہے

رات تھوڑی سی ہے بس جانے دے مل ہنس کر بول
ناخوشی تا بہ کجا صبح ہوئی جاتی ہے

روشنی خانۂ عاشق کی ہے تجھ سے ورنہ
تو نہ ہو تو شب مہتاب کسے بھاتی ہے

سادگی دیکھ تو دل اس سے کرے ہے یاری
ناگنی دیکھ کے جس زلف کو بل کھاتی ہے

مہ رخاں کیا ہیں کہ ہو آ کے مقابل بیدارؔ
کانپتی سامنے جس شوخ کے برق آتی ہے