چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے
سینکڑوں داغ ہیں اور ایک مری چھاتی ہے
گرچہ طوطی بھی ہے شیریں سخنی میں ممتاز
پر تری بات کی لذت کو کہاں پاتی ہے
بدلی آ جاتی ہے اس لطف سے خورشید پہ کم
زلف منہ پر ترے جس آن سے کھل جاتی ہے
گل ہی تنہا نہ خجل ہے رخ رنگیں سے ترے
نرگس آنکھوں کے ترے سامنے شرماتی ہے
میں کہاں اور ترا وصل یہ ہے بس اے گل
گاہ بے گاہ تری بو تو صبا لاتی ہے
رات تھوڑی سی ہے بس جانے دے مل ہنس کر بول
ناخوشی تا بہ کجا صبح ہوئی جاتی ہے
روشنی خانۂ عاشق کی ہے تجھ سے ورنہ
تو نہ ہو تو شب مہتاب کسے بھاتی ہے
سادگی دیکھ تو دل اس سے کرے ہے یاری
ناگنی دیکھ کے جس زلف کو بل کھاتی ہے
مہ رخاں کیا ہیں کہ ہو آ کے مقابل بیدارؔ
کانپتی سامنے جس شوخ کے برق آتی ہے
غزل
چمن لالہ یہ الفت تری دکھلاتی ہے
میر محمدی بیدار