چمن چمن جو یہ صبح بہار کی ضو ہے
ترے تبسم رنگیں کا ایک پرتو ہے
خزاں کی رات کے قاتل کہاں گئے دیکھیں
کہ جو لہو ہے چراغ بہار کی لو ہے
چلے نہ ساتھ زمانہ تو اس کو یوں کہیے
ٹھہر گیا ہے مسافر کہ جادۂ نو ہے
بجھا ہے دل تو نہ سمجھو کہ بجھ گیا غم بھی
کہ اب چراغ کے بدلے چراغ کی لو ہے
مری زمیں پہ جبین عرق عرق کے سوا
نہ قطرۂ مۂ رنگیں نہ دانۂ جو ہے
سوال وقت کی پرچھائیوں سے ہم بھی کریں
ہمارے دل میں بھی ہلکا سا ایک پرتو ہے
کٹے جو تیرگی شام غم تو کیسے شمیمؔ
خفا خفا سی کسی کے خیال کی ضو ہے
غزل
چمن چمن جو یہ صبح بہار کی ضو ہے
شمیم کرہانی