چمن چمن ہی نہیں ہے جو لالہ زار نہیں
ہم اس کو دل نہیں کہتے جو داغدار نہیں
میں چل رہا ہوں زمانے کے ساتھ ساتھ مگر
فضا زمانے کی پھر بھی تو سازگار نہیں
رقیب جھوٹ کہے گا تو سچ سمجھ لو گے
کہیں گے سچ بھی اگر ہم تو اعتبار نہیں
میں ان کے حسن کو الزام دینے والا کون
جب اپنے دل پہ مجھے خود ہی اختیار نہیں
اب اور دیکھیے توہین عشق کیا ہوگی
وہ کہہ رہے ہیں ہمیں تیرا اعتبار نہیں
تمہارے ہجر میں دن کس قدر گزارے ہیں
کوئی حساب نہیں ہے کوئی شمار نہیں
ترے کرم کے بھروسے پہ مطمئن ہوں میں
یہ جانتا ہوں کہ مجھ سا گناہ گار نہیں
کسی کے رخ پہ نظر جم کے رہ گئی شاید
مری نگاہ میں رنگینیٔ بہار نہیں
خمار نشۂ ہستی ہے وہ بلا شنکرؔ
بہک رہا ہے ہر اک کوئی ہوشیار نہیں

غزل
چمن چمن ہی نہیں ہے جو لالہ زار نہیں
شنکر لال شنکر